Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر3

وہ تقریباً، عنقا کے سہارے ہی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ توازن بگڑنے پر خود کو سنھبال نہ پائی۔۔!!
اور لڑھکتی ہوئی نیچے کو گِری، عنقا نے اپنی طرف سے، اسے بروقت تھامنے کی پوری کوشش کی تھی پر اس کی کوشش رائیگاں گئی۔
اس نے بے یقینی سے فرش پر پڑے، اریزے کے وجود کو دیکھا اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے ، اُس تک پہنچی، وہ جس قدر بے یقین تھی، عدیل اس سے کہیں زیادہ ، شاکڈ تھا، اور اسی شاک کی کیفیت میں میں وہ عنقا سے پہلے اریزے تک پہنچا،
وہ حال ہی میں گزرے ان چند لمحوں کو ان کی تمام تر ہولناکیوں سمیت ، اپنی آنکھوں سے بخوبی ملاحظہ کر چکا تھا۔
ایک تکلیف تھی، جو اسے ، خود میں سرایت کرتی محسوس ہوئی،  اس کی آنکھوں کے سامنے، اریزے بری طرح تکلیف سے مچل رہی تھی، اس کے درد کی شدت کا اندازہ اس کی چیخوں اور اس کے کراہنے کے کی آواز سے ، اچھی طرح لگایا جا سکتا تھا۔
عدیل نے مزید وقت ضائع کیے بغیر اسے اٹھایا اور باہر کی طرف نکلا، عادل بھی اریزے کی چیخوں کی آوازیں سنتا وہاں آیا تھا، صرف ایک سیکنڈ میں وہ سارا معاملہ سمجھ چکا تھا، وہ بھی تقریباً بھاگتا ہوا کار پورچ کی طرف بڑھا اور عدیل کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کار ان لاک  کر کے، اسٹارٹ کر چکا تھا۔
عنقا کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے، اریزے ابھی تک بری طرح تڑپ رہی تھی، درد کے مارے اسے اپنا سانس اکھڑتا محسوس ہوا، عدیل اس وقت خود کو بے حد ، بے بس محسوس کر رہا تھا، اسے بے تحاشہ افسوس تھا کہ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے ہوا اور وہ کچھ نہیں کر پایا، وہ اسے بچا نہیں پایا۔
اس وقت اس کا دھیان، ذرا بھی عنقا کی طرف نہیں گیا۔۔ عنقا پر دھیان دینا تو  دور کی بات۔۔ اسے تو اس وقت کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔۔ سوائے اریزے کے۔۔!!
××××××
اریزے کو فوراً ایمرجنسی میں لے جایا گیا، عنقا نے خود کو سنبھالتے ہوئے اپنے گھر انفارم کیا، عادل نے بھی فوراً اپنے مام،ڈیڈ کو کال کر کرکے سب کچھ بتایا، اب وہ عنقا کو تسلی دے رہا تھا، اور اریزے کے سارے کام، عدیل خود ہی ، بھاگ بھاگ کر رہا تھا۔
عادل نے اس کی ہیلپ کی کوشش کی پر اس نے یہ کہہ کر منع کیا کہ "وہ میری اریزے ہے، میں اس کے کام کر سکتا ہوں۔۔!!" عادل جانتا تھا، وہ اریزے کے معاملے میں کتنا جذباتی ہے۔۔ اس لیے اس نے بحث نہیں کی۔
اب عدیل اکیلا ہی، اندر باہر ہورہا تھا، نرسیں کبھی دواؤں کے لیے دوڑا رہی تھیں تو کبھی انجیکشنز لانے کیلئے، کبھی ڈاکٹرز اسے بلا رہے تھے تو کبھی وہ خود ہی آپریشن تھیٹر کے باہر بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا۔
اریزے اس وقت آپریشن تھیٹر میں تھی، اس کی حالت بہت پیچیدہ تھی، ڈاکٹرز پہلے ہی بتا چکے تھے کہ وہ اس وقت بےبی کو نہیں بچا سکتے۔ 
آنسو لڑیوں کی صورت میں عدیل کی آنکھوں سے جاری تھے۔ وہ شاید اپنی زندگی میں پہلی بار رویا تھا۔ وہ اریزے کے آنے سے زندگی میں پہلی بار، خوش بھی تو اتنا زیادہ ہوا تھا۔۔ پر شاید یہ خوشی اسے راس نہیں آئی۔۔ یا اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اپنی مدت پوری کر چکی تھی۔
عنقا کے والدین سلیمان صاحب اور فہمیدہ بیگم بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔ ان کے آتے ہی عنقا بے قرار ہوتی، اپنی امی سے لپٹی تھی۔۔ آنسو، اُس کے بھی شدت سے بہہ رہے تھے۔
سلیمان صاحب بھی بے حد پریشان تھے ، انہوں نے عدیل کو تسلی تھی۔۔ پر وہ کہاں مطمئن ہونے والا تھا۔
عدیل کو دیکھ دیکھ کر، عنقا مزید دُکھی ہوئی، اب تو وہ جانتی تھی ناں۔۔ وہ عدیل کی اریزے سے والہانہ محبت پر یقین کر چکی تھی ناں۔۔ اب تو اسے اچھے سے عدیل کے جذبات کا اندازہ تھا۔۔ اس لیے اسے، عدیل کے لیے بھی تکلیف محسوس ہوئی۔۔ اس کے چہرے پر تواتر سے بہتے آنسو، عنقا کے بھی گال بھگو رہے تھے۔۔
مصطفیٰ صاحب اور ان کی بیگم کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہوگا۔۔ وہ دونوں بھی بری طرح شاکڈ تھے۔ 
تصور تو کسی نے بھی نہیں کیا تھا کہ ایسا کچھ ہوگا۔۔!! پر جو ہونا ہونا ہے۔۔ اسے کون ٹال سکتا ہے۔
×××××××
ایک اضطراب تھا۔۔ ایک بے چینی تھی ، جس سے اس وقت وہ سارے گزر رہے تھے۔۔ عدیل کی بھی یہی حالت تھی۔۔ اور ان سب سے کہیں بڑھ کر تھی۔۔!! اور عدیل کی یہ حالت۔۔ عنقا کے لیے دیکھنا محال ہوگیا تھا۔۔!!
ایک تو اس کا اپنا احساسِ جرم۔۔۔ جو اسے یہ ماننے پر مجبور کر رہا تھا کہ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے۔۔ پھر جو کچھ ہوا تھا۔۔ اُس کی تکلیف علیحدہ تھی۔۔ اور اوپر سے عدیل کی تڑپ۔۔ شاید ان سب لوگوں میں سب سے زیادہ۔۔ عنقا، اذیت میں تھی۔
ہر کوئی ، مسلسل، اریزے کی عافیت کے لیے دعاگو تھا۔۔ عدیل کا تو رواں رواں "دعا" بنا ہوا تھا۔
زندگی میں پہلی دفع، اس نے اتنی شدت سے دعا کی تھی۔ پر کچھ دعائیں ہوتی ہیں ناں۔۔ جن کے مقدر میں قبولیت نہیں لکھی ہوتی۔۔ کچھ دعائیں ہوتی ہیں ناں جو ادھوری رہ جاتی ہیں۔۔ بس اُس کی دعا بھی انہی دعاؤں میں سے ایک تھی۔
لیکن ہماری یہ ادھوری اور قبولیت سے خالی دعائیں، بروزِ قیامت، ہمارے لیے ڈھیر سارے، اجر و ثواب کا ذریعہ بنتی ہیں، اس لیے ہمیں اپنے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔
عدیل  نے بھی دل چھوٹا نہیں کیا تھا۔۔ بس وہ بار بار انکار کیے جارہا تھا۔۔ اسے ڈاکٹر کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔!! اور وہ چند لمحوں تک، ڈر اور خوف سے اریزے کی لاش کے قریب بھی نہیں کیا۔
اریزے کی موت ایک سچ تھا جسے وہ جھٹلانا چاہ رہا۔۔ پر نہیں جھٹلا سکا۔۔ باقی سب کے ساتھ ساتھ اسے بھی یقین کرنا پڑا۔۔اور جب اسے یقین آیا تو اس نے ،اپنی زور دار دھاڑ سے، ایک لمحے کے لیے، سب کو ہی لرزا دیا تھا۔ 
اس کے بعد وہ خوب رویا۔۔۔!! جتنی شدت سے رو سکتا تھا رویا۔۔!! وہ تڑپا تھا۔۔ وہ بری طرح مچلا تھا۔۔!!
×××××
کچھ دن تک تو وہ اپنا آپ بھلائے۔۔ اریزے کے غم میں گُھلتا رہا۔۔ اور پھر اچانک وہ منظر۔۔ وہ اریزے کا گرنا اسے یاد آیا۔۔ اُسے یاد آیا کہ وہ عنقا کی وجہ سے گری تھی۔
اسے احساس ہوا کہ اس کی اریزے کی موت کی ذمہ دار عنقا ہے اور پھر، اس کے وجود میں، انتقام کی آگ، سلگنے لگی۔۔!!
"میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔۔!! ظالم عورت۔۔!! تم نے مجھ سے، میری اریزے کو چھینا ہے۔۔!!" 
اس نے غصے سے آگ بگولا ہوتے ہوئے ،اپنے تصور میں عنقا کو مخاطب کیا۔۔۔ اور ایک بار پھر تڑپ کر رو دیا۔

   1
0 Comments